دنیا بھر میں بندرگاہیں کسی بھی ملک کی معیشت کے اہم ستونوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ یہ نہ صرف تجارتی سرگرمیوں کے لئے مرکزی مقامات ہوتے ہیں بلکہ ملکی ترقی، عالمی رابطے اور رسد کے نظام میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ جدید دور میں جہاں تجارت کا حجم دن بدن بڑھ رہا ہے، وہاں بندرگاہوں کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک نے اپنی بندرگاہوں کو عالمی معیار کے مطابق ترقی دی ہے، جبکہ کچھ ممالک اس دوڑ میں پیچھے ہیں۔ اس مضمون میں، ہم پاکستان کی بندرگاہوں کا موازنہ عالمی بندرگاہوں کے ساتھ کریں گے اور یہ دیکھیں گے کہ پاکستان اس میدان میں کہاں کھڑا ہے۔
عالمی بندرگاہوں کا جائزہ
دنیا کی بڑی بندرگاہیں جیسے کہ شنگھائی (چین)، روٹرڈیم (نیدرلینڈز)، سنگاپور، اور دوبئی، عالمی تجارت کے بڑے مراکز ہیں۔ یہ بندرگاہیں جدید ٹیکنالوجی، لاجسٹک سپورٹ، اور مربوط ٹرانسپورٹ سسٹم سے آراستہ ہیں، جس کی بدولت ان میں ہر سال لاکھوں ٹن سامان کی نقل و حمل ہوتی ہے۔ شنگھائی پورٹ کو دنیا کی سب سے بڑی اور مصروف ترین بندرگاہ سمجھا جاتا ہے، جہاں سالانہ 43 ملین TEUs (twenty-foot equivalent units) کا ٹریفک ہوتا ہے۔ اسی طرح سنگاپور پورٹ دنیا کی سب سے بڑی کنٹینر ہینڈلنگ پورٹ ہے، جو مشرقی اور مغربی دنیا کے درمیان تجارتی پل کا کردار ادا کرتی ہے۔
دوسری طرف، روٹرڈیم پورٹ یورپ کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے اور پورے براعظم میں تجارتی سرگرمیوں کا مرکز سمجھی جاتی ہے۔ یہاں سے پورے یورپ میں سامان کی نقل و حمل ممکن ہوتی ہے اور یہ بندرگاہ جدید انفراسٹرکچر اور ماحولیاتی دوستانہ ٹیکنالوجی کے حوالے سے عالمی معیار پر پورا اترتی ہے۔
پاکستان کی بندرگاہیں: موجودہ صورتحال
پاکستان میں اہم بندرگاہیں کراچی پورٹ، پورٹ قاسم اور گوادر پورٹ ہیں۔ ان تینوں بندرگاہوں میں کراچی پورٹ سب سے پرانی اور سب سے زیادہ مصروف ہے۔ پورٹ قاسم صنعتی لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے، جبکہ گوادر پورٹ کو مستقبل کی بندرگاہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کا مرکزی حصہ ہے۔
کراچی پورٹ ملک کی سب سے بڑی اور مصروف ترین بندرگاہ ہے، جو سالانہ 25 ملین ٹن سامان ہینڈل کرتی ہے۔ یہ بندرگاہ پاکستان کی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز ہے اور یہاں سے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور دیگر ممالک کو برآمدات اور درآمدات ہوتی ہیں۔ تاہم، عالمی بندرگاہوں کے مقابلے میں کراچی پورٹ کا انفراسٹرکچر پرانا ہے اور اسے جدید ٹیکنالوجی کی شدید ضرورت ہے۔
پورٹ قاسم ملک کی دوسری بڑی بندرگاہ ہے جو بنیادی طور پر صنعتی مصنوعات کی نقل و حمل کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ یہاں سے سیمنٹ، سٹیل، اور توانائی کے ذرائع جیسے کوئلہ اور LNG کی نقل و حمل ہوتی ہے۔ تاہم، اس بندرگاہ کا بھی انفراسٹرکچر عالمی معیار کے مقابلے میں کمزور ہے اور اسے جدید بنانے کی ضرورت ہے۔
گوادر پورٹ کو پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے ایک گیم چینجر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بندرگاہ جغرافیائی لحاظ سے اہم مقام پر واقع ہے، جو مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور افریقہ کے درمیان تجارتی رابطوں کو فروغ دے سکتی ہے۔ تاہم، گوادر پورٹ ابھی ترقی کے ابتدائی مراحل میں ہے اور اسے عالمی معیار تک پہنچنے کے لئے بہت محنت درکار ہے۔
موازنہ: عالمی معیار اور پاکستان
دنیا کی بڑی بندرگاہوں کے مقابلے میں پاکستان کی بندرگاہیں ابھی بہت پیچھے ہیں۔ عالمی بندرگاہوں میں جدید ٹیکنالوجی، بہتر لاجسٹک سپورٹ، اور موثر مینجمنٹ سسٹم ہوتے ہیں، جو انہیں تیز، محفوظ اور ماحول دوست بناتے ہیں۔ مثلاً شنگھائی پورٹ اور سنگاپور پورٹ جیسے مراکز میں خودکار کرینز، جدید کنٹینر ٹریکنگ سسٹمز اور کم توانائی استعمال کرنے والے انفراسٹرکچر کا استعمال ہوتا ہے، جس سے ان بندرگاہوں کی کارکردگی بہت بہتر ہوتی ہے۔
اس کے مقابلے میں، پاکستان کی بندرگاہوں میں ٹیکنالوجی کا فقدان ہے اور انفراسٹرکچر کی حالت بھی تسلی بخش نہیں۔ کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کو جدید بنانے کے لئے حکومتی سطح پر کوششیں تو کی جا رہی ہیں، لیکن یہ عمل سست رفتار ہے۔ گوادر پورٹ کو اگرچہ ایک بڑے اقتصادی مرکز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، لیکن اس کی ترقی کے لئے ابھی کئی چیلنجز درپیش ہیں، جن میں سرمایہ کاری، سیکورٹی اور لاجسٹکس کے مسائل شامل ہیں۔
چیلنجز اور مواقع
پاکستان کی بندرگاہوں کو عالمی معیار کے مطابق لانے کے لئے حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کو مشترکہ طور پر کام کرنا ہوگا۔ انفراسٹرکچر کی بہتری، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور لاجسٹک سپورٹ کو بہتر بنانا ضروری ہے تاکہ پاکستان عالمی تجارت میں بہتر مقام حاصل کر سکے۔ ساتھ ہی ساتھ، گوادر پورٹ کی ترقی کو تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ عالمی تجارتی مراکز کے ساتھ مقابلہ کر سکے۔
ایک اور اہم چیلنج بندرگاہوں کے انتظامی امور کا ہے۔ عالمی بندرگاہیں موثر اور جدید مینجمنٹ سسٹمز کے تحت کام کرتی ہیں، جبکہ پاکستان کی بندرگاہوں میں بیوروکریسی، بد انتظامی اور کرپشن جیسے مسائل حائل ہیں۔ اگر ان مسائل کو حل کیا جائے تو پاکستان کی بندرگاہیں عالمی معیار تک پہنچ سکتی ہیں۔
نتیجہ
پاکستان کی بندرگاہیں عالمی معیار کے مقابلے میں ابھی پیچھے ہیں، لیکن ان میں بے پناہ پوٹینشل موجود ہے۔ گوادر پورٹ پاکستان کے لئے مستقبل میں ایک بڑا اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے اگر اسے صحیح طریقے سے ترقی دی جائے۔ عالمی بندرگاہوں سے سیکھنے اور جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کے ذریعے پاکستان اپنی بندرگاہوں کو عالمی معیار کے مطابق لا سکتا ہے اور عالمی تجارت میں اپنا مقام بہتر بنا سکتا ہے۔